الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 85ء میں عمرے اور 86ء میں حج کی سعادت سے نوازا۔ دوسرا عمرہ اس وقت ہماری قسمت میں ہوا جب جنوری 2003ء میں ہمیں اس وقت کے ولی عہد اور آج کے خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے ریاض میں مدعو کیا تھا۔ ریاض میں شاہ عبداللہ نے دنیا بھر کے اسکالرز اور دانشوروں کو 11/9نامی حادثے اور المیے کے اسلام اور مسلمانوں پر اثرات پر غور کے لئے مدعو کیا تھا۔ اسی سفر میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد19جنوری کو جدہ کے سرور پیلس میں ہماری طویل ملاقات میاں شہباز شریف سے ہوئی اور بعدازاں ہم نے صدر مشرف کے عہد میں میاں شہباز شریف کی صلاحیتوں اور کردار کے حوالے سے مسلسل کالم لکھے تھے۔ دسمبر 2006ء کے آخری دنوں میں خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے پوری دنیا سے ایک ہزار علماء ' دانشوروں' اہل قلم' تجزیہ نگاروں اور تعمیرات و انجینئرنگ کے ماہرین کو اپنا مہمان بنا کر حج کی ادائیگی کے لئے مدعو کیا تھا پاکستان سے پچاس افراد کا انتخاب ہوا جس میں ثقہ علماء کرام کی کافی تعداد بھی شامل تھی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہم سب سے الگ تھلگ مزاج لئے ہوئے تھے۔ ایسا ہی ایک فقیر' درویش اور قلندر ایک دوسرے کونے میں بیٹھا تھا۔ ان سے بات کرنے کی شدید خواہش پیدا ہو رہی تھی مگر ہم خاموش رہے خلیجی فلائٹ دھند کی وجہ سے ائیرپورٹ پر اتر نہ سکی تو احرام باندھے ہوئے قافلے میں پریشانی در آئی مگر یہ فقیر' درویش اور قلندر سا شخص بڑا ہی مطمئن تھا۔ سعودی سفارت خانے کی تگ و دو سے بالآخر پی آئی اے کے ذریعے ان ثقہ علماء دانشوروں' پروفیسروں' انجینئروں اور تجزیہ نگاروں کا قافلہ عشاء کے قریب جدہ کو روانہ ہوگیا تھا۔ کیا یہ محض حسن اتفاق تھا کہ جہاز میں ساتھ والی نشست پر وہی فقیر' درویش اور قلندر موجود تھا جس سے ائیرپورٹ پر ہمیں بات کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی' جدہ اترنے سے پہلے ہم دونوں میں تعارف پھر دوستی ہوچکی تھی صوفی مزاج کا یہ شخص دفاعی تجزیہ نگار ماضی میں افغان جہاد میں روسیوں کے خلاف برسرپیکار رہ چکا تھا اور اب وہ ہندوئوں اور صہیونیوں کے افکار اور ایجنڈے کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا۔ یہ شخص قائداعظم کا سپاہی اور علامہ اقبال کا سچا پیروکار اور شاگرد تھا۔ اس کا نام زید زمان حامد تھا جو اردو بولنے والے مہاجر خاندان کا فرد تھا اس کے دفاعی تجزئیے مسلمان عظمت کے خواہش مند اور مسلمان زوال کے طویل ہونے کی تگ و دو کرنے والے حلقوںمیں مسلسل پڑھے جاتے تھے یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ مکہ میں جو رہائش ملی اس کا پڑوسی یہی زید زمان حامد تھا لہٰذا ہم دونوں نے اکٹھے ہی طواف بیت اللہ کیا اور ہم دونوں ہی طواف کرتے ہوئے روتے رہے اور اپنی اپنی ذات' خاندانوں' ملک اور امت کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھولی پھیلاتے رہے تھے۔ بیت اللہ کے طواف کے دوران ہمارا تعارف عقیدہ توحید سے سرشار' بیت اللہ کے عشق میں مبتلا زید زمان حامد سے ہوا منیٰ میں جو رہائش ملی اس میں بھی زید ہمارا پڑوسی تھا۔ لہٰذا منی' عرفات اور مزدلفہ میں ہمیں ان کی روحانی اور دینی پیاس بار بار دیکھنے کو ملی جو وہ بار بار سیرابی کے مرحلے سے مزین کرتے تھے ۔ اس سفر میں ان کا دنیاوی اور مادی معاملات میں استغنا کھل کر ہمارے سامنے آگیا اور ہمیں سمجھ آگئی کہ کیوں ائیرپورٹ پر ہم ان سے ہمکلام ہونے کو بے چین تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی رہائش جو ملی ہم دونوں اکٹھے تھے لہٰذا مسجد نبوی میں ہم نے اکٹھے ہی جانا تھا۔ ہم نے سیاہ قراقلی سر پر سجائی کہ ننگے سردربار رسول اللہۖ کے سامنے جانے سے شرمندگی کا احساس تھا جبکہ زید زمان حامد نے سیاہ رنگ کا عمامہ سر پر آویزاں کیا اور یوں ہم دونوں نماز کی ادائیگی کے بعد اکٹھے روضہ رسولۖ کے سامنے درودوسلام کے لئے حاضر ہوئے اس لمحے زید کا عشق رسولۖ ہمارے سامنے کھل کر آگیا تھا صحابہ کرام حضرت ابوبکرصدیق' حضرت عمر' حضرت عثمان غنی اور جنت البقیع میں مدفون صحابہ کرام سے ان کی محبت کے ساتھ ساتھ حضرت علی اور حضرت فاطمہ سے ان کی محبت بھی ظاہر تھی کہ اکثر وقت ہم اگر روضہ ریاض الجنہ میں نہ گزار سکتے تو پھر اس اونچے چبوترے پر بیٹھتے ہوئے گزارتے جو نورالدین زنگی نے اپنے خواب کے بعد روضہ رسولۖ کی حفاظت کے لئے بنوایا تھا یہ حضرت فاطمہ اور حضرت علی کے حجرات کے بالکل سامنے ہے۔ بائیں طرف والی جگہ پر جبرائیل امین وحی لیکر آتے تھے۔ زید حامد نے ہمارے ساتھ ایک مہربانی کی وہ ہمیں ساتھ لیکر رسول اللہۖ کے ''فقراء جو افریقہ سے اور یورپ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ کچھ کا تعلق برصغیر اور کچھ کا سینٹرل ایشیاء سے ہے۔ یہ فقراء رسول اللہۖ کے طور پر مشہور ہیں۔ ان کا کام عبادت اور رسولۖ پر درود و سلام بھیجنا ہے۔ سعودی حکومت اپنی سخت گیری کے باوجود ان کے حوالے سے مطمئن ہے۔ لہٰذا وہ دن رات مسجد نبوی میں ہوتے ہیں۔
زید حامد نے 18عمرے کئے ہیں اور حج ہمارے ساتھ کیا ہے۔ ہمیں سمجھ آگئی کہ زید حامد میں اتنی دلیری' بے باکی' ذہانت اور اظہار بیان کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ یہ ان کے عقیدہ توحید کی پختگی' بیت اللہ سے عشق' رسولۖ کی ذات گرامی سے والہانہ محبت اور خود کو غلام رسول سمجھنے کا انعام ہے۔ فقراء رسول اللہۖ سے طویل اور گہرے تعلق کا ثمر ہے۔ یہ سب لوگ زید حامد کے لئے مسجد نبوی میں اکثر دعا کرتے ہیں اور اکثر رسول اللہۖ کے سامنے اس کی سفارش کرتے ہیں یہ معاملات شائد تزکیہ نفس' تصوف اور روحانیات سے بھی کچھ کچھ تعلق رکھتے ہیں ۔زید حامد کو یقین کامل ہے کہ پاکستان کی تخلیق ''امر ربی'' سے ہوئی تھی۔ تشکیل پاکستان کے مراحل میں خود رسول اللہۖ قائداعظم اور ان کی تحریک کی مدد فرماتے تھے اور اقبال نے جس مسلمان خطہ سرزمین کا خواب دیکھا تھا اصل میں وہ سب کچھ رسول اللہۖ کا دیا ہوا فیضان تھا۔ اس پاکستان کو مستحکم اور مضبوط بنانے کی جدوجہد زید زمان حامد اپنے ٹی وی پروگراموں میں کرتے ہیں وہ یہودی صیہونیوں اور ہندو صیہونیوں کے عزائم اور ایجنڈے کو بے نقاب کرکے مسلمان نوجوانوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ اپنے آباء کے ملک کو مضبوط بنائیں اور مستحکم کریں اسے قائد اور اقبال کا پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد کریں۔ ہم ہرگز یہ تحریر کبھی نہ لکھتے مگر چند روز پہلے کراچی میں مولانا سعید جلال پوری اور ان کے رفقاء کا قتل ہوگیا تھا کچھ سادہ روحوں نے جلد بازی اور غلط فہمی سے اس حوالے میں زید زمان حامد کا نام ایف آئی آر میں دے دیا تھا ایک اخباری گروپ نے اس کو اچھالا تھا جبکہ میں اپنے رب کے حضور زیدزمان حامد کی بریت اور بے گناہی کے لئے جھولی پھیلا کر بیٹھا رہا کیونکہ میں نے جس زید حامد کو بیت اللہ میں دیکھا تھا۔ منی' عرفات اور مزدلفہ میں پرکھا تھا مسجد نبوی اور روضہ رسولۖ کے سامنے محبت رسول اللہ میں مستغرق پایا تھا وہ تو ایسا کام کر ہی نہیں سکتا تھا۔ الحمدللہ کہ کراچی کے قابل احترام مفتی نعیم کا بیان سامنے آگیا ہے۔
کچھ لوگوں نے جلدبازی کی اور علماء کے قتل میں ملوث ہونے کا شبہ معصوم زید زمان حامد پر ظاہر کر دیا حالانکہ اتنا بڑا کام زید حامد اکیلا تو کر ہی نہیں سکتا تھا تو گویا یہ ''الزام'' ایک ''تہمت تھی جو معصوم سے زید زمان حامد کے حوالے سے جلد بازوں اور سستی شہرت کے لئے بے تاب حلقوں کی طرف سے لگائی گئی تھی۔ مذکورہ بالاتحریر لکھ کر اپنی شہادت زید حامد کے حوالے سے اس لئے دے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ گواہی کو بوقت ضرورت پیش نہ کرنا ظلم ہے ۔ زید حامد رسول اللہ کا سچا غلام' عقیدہ توحید پر مضبوطی سے قائم عقیدہ ختم نبوت پر دل و جان سے پورا ایمان رکھنے والا اور سچا مسلمان دفاعی تجزبہ نگار ہے اللہ تعالیٰ اس کو اپنی امان میں رکھے اور حاسدوں کے شر سے اسے محفوظ رکھے۔ (آمین)
Professor Mohiuddin
1 comment:
Very Beautiful MashAllah
JazakAllah khair
Post a Comment